Saturday, 8 June 2013
عمران خان کا شخصی تجزیہ :
“مجھے اگر دوبارہ زندگی ملی اور مجھے یہ چانس دیا گیا کے میں کیا بننا چاہوں گا تو میں بلا جھجھک جواب دوں گا کے میں “عمران خان ” کی شخصیت میں پیدا ہونا چاہوں گا .”یہ الفاظ معروف سابق بھارتی بلے باز اور موجودہ دور کے بہترین کمنٹیٹر سنجے منجریکر کے ہیں .یہی خواہش بہت سے دوسرے لوگوں کی بھی ہو گی . ہم دوبارہ زندگی تو شائد نہ پا سکیں لیکن ہم عمران خان کی شخصیت کا ایک تجزیہ تو ضرور کر سکتے ہیں تا کے ہم پاکستان کے مستقبل کے وزیر اعظم یا ممکنہ اپوزیشن لیڈر کی شخصیت کو مکمل طور پر سمجھ سکیں .
فزیکل اپیریینس (جسمانی ساخت )
سابق سپورٹس مین کی حیثیت سے عمران ایک ایتھلیٹک جسم کے مالک ہے .ایک سیاست دان کی مصروف زندگی گزارنے کے باوجود بھی وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر ریٹایرڈ کھلاڑیوں کی طرح نہ تو ان کی توند نکلی ہے اور نہ ہی وہ بد وضح ہوے ہیں .ان کی پر کشش اور مقناطیسی پرسنالٹی کو تو ایک زمانہ متعرف ہے .گو کے اب 60 برس کے ہو چکے ہیں لیکن چست و توانا ،اور فریش لگتے ہیں .لباس کے معاملے میں وہ سادہ لباس کو ہی ترجیح دیتے ہیں .اور اکثر اوقات سفید کرتا اور شلوار میں ہی ملبوس دکھائی دیتے ہیں .مسلسل اپنے آپ کو فٹ رکھنے کی خواہش یہ ظاہر کرتی ہے کے وہ سخت محنت کے عادی ہیں اور مستقبل پر گہری نظر رکھتنے ہیں .کیوں کے دولت ،شہرت میں اکثر شخصیات گم ہو کر مزید امپروومنٹ کی کوشش نہیں کرتیں لیکن عمران خان ان سب کے بر عکس ہیں .لباس میں سادگی کو انہوں نے جان بوجھ کر اپنا ہے .جوانی میں مغربی طرز زندگی سے عاجز اور اکتا کر عمران خان اب دیسی روپ میں ہی سکون محسوس کرتے ہیں .یہ عادت ظاہر کرتی ہے کے عمران اپنی بنیاد کو نہیں بھولتے .
عادات و اطوار و خصائل :
عمران خان اپنی عادتوں میں کسی قسم کی گھبراہٹ یا شرمندگی محسوس نہیں کرتے ..وہ کسی سے شاذ ہی جھک کر پر تکلف طریقے سے ملتے ہوں .اکثر اوقات ان کا سلام خاصا روکھا پھیکا سا ہوتا ہے اس میں عام سیاست دانوں والی “انتخابی ” اور “ووٹری ” گرم جوشی نہیں ہوتی ..یہ بات عیاں کرتی ہے کے عمران دوسرے شخص کو خوامخوہ ہی عزت دینے کے قائل نہیں ہیں جو کے ہمارے مروجہ روایات کے بر خلاف ہے .وہ کسی بھی آدمی سے اس کے اوصاف کی بنا پر ہی متاثر ہوتے ہیں اس کے عہدے یا سٹیٹس سے قطعا مرعوب نہیں ہوتے .لیکن ان کی یہ عادت حساس اور ان سے پیار کرنے والوں کو ان سےبد ظن بھی کر سکتی ہے .عمران خان میں اب بھی ایک شرمیلا انسان چھپا بیٹھا ہے جو ہر کسی کے سامنے بےتکلف ہو کر گفتگو نہیں کر سکتا ،یہ عادت لوگوں کو اس بد گمانی میں مبتلا کرتی ہے کے وہ ایک مغرور انسان ہیں .حالانکہ بظاھر تو حقیقت اس کےبر عکس ہے .سینکڑوں تصاویر اور واقعات اس بات کے گواہ ہیں کے عمران ہر چھوٹی بڑی جگہ پر کھانا کھا لیتے ہیں ہر کسی سے مل لیتے ہیں ،ہر کسی کا جھوٹا کھانا پینا ،استمال کر لیتے ہیں ،اور کسی قسم کے غرور کا مظاہرہ نہیں کرتے .
عمران خان جس طریقے سے گھر میں کھانے پر “ٹوٹ” پڑتے ہیں اسی طرح وہ محفلوں میں بھی کسی قسم کا کوئی لحاظ نہیں کرتے اور پیٹ پوجا میں کسی” شرم و حیا ” اور روایتی “بس بس ” اور ” نہیں نہیں ” والا تکلف نہیں برتنے .سنیل گواسکر کے بقول عمران جنگلیوں کی طرح کھانا کھاتا ہے .اس عادت سے ظاہر ہوتا ہے کے عمران اپنے آپ کو لوگوں سے چھپاتے نہیں ہیں وہ لوگوں کے سامنے بھی ویسے ہی نظر آنا چاھتے ہیں جیسے کے وہ ہیں ..ان میں ذرا سی بھی منافقت نظر نہیں آتی .دوسرے معنوں میں وہ ایک ضدی شخصیت ہیں جو اپنے “امیج” کی پرواہ نہیں کرتے .ایک وقت میں اکثر ایک ہی کام پر فوکس رکھتے ہیں اور بسا اوقات تو اتنے ہی مگن ہوتے ہیں کے دوسرے پہلو کی طرف ان کی نگاہ بھی نہیں جاتی .یہ عادت منفی بھی ہے اور انتہائی مثبت بھی .
اخلاق،مزاج ،گفتگو :
عمران ایک آئیڈیل سیاست دان جیسی روانی سے گفتگو نہیں کر پاتے ..لیکن کیوں کے زیادہ گھما پھرا کر اور گول مول بات نہیں کرتے اس لئے عوام ان کی بات چیت اورانٹرویوز شوق سے سنتے ہیں .عمران زیادہ سخی مہمان نواز نہیں ہیں …ممکن ہے “نواز” کی موجودگی ہی اس “پرہیز گاری” کی وجہ ہو ؟لیکن دوسروں پر اور ضرورت مندوں پر پیسا خرچ کرنے میں وہ بہت سخی ہیں .مزاج میں گرمی اور غصے کا عنصر زیادہ ہے ،اکثر اوقات فورا ہی بغیر سوچے سمجھے “ری ایکٹ” کر جاتے ہیں جس کا بعد میں ان کو خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے .کسی بھی بات پر قائل آسانی کے ساتھ نہیں ہوتے جو ضدی ہونے کی نشانی ہے اور اپنے خیالات پر پختہ ہونے کی بھی ..دوران گفتگو اپنے ہاتھوں کا خوب استمعال کرتے ہیں ،بار بار کرسی پر پہلو بدلتے ہیں ،مختلف قسم کے “فنی” چہرے بناتے ہیں اور کھل کر گفتگو کرتے ہیں ..ہاتھوں کا استمال ان کے اعتماد کا آئینہ دار ہے اکثر اوقات خطاب یا دوران انٹرویو اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو عوام اور لوگوں کے سامنے رکھ کربات کرتے ہیں جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کے وہ لوگوں سے کچھ چھپا نہیں رہے اپنے آپ کو سب لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں کے دیکھو میں آپ کے سامنے ہوں میں جو کہ رہا ہوں اس پر مجھے خود بھی پورا یقین ہے .لیکن مسلسل “فجٹی ” رہنا ،اور پہلو بدلنا ان کی دوسرے کی بات پر غور نہ کرنے کی نشاندہی کرتا ہے .اور مزاج میں ایک عجیب سے بے چینی کو ظاہر کرتا ہے جو ایک مثبت رویہ نہیں ہے ..بات کرتے وقت اپنے چہرے کا خوب استمال کرتے ہیں اور الفاظ کے ساتھ موزوں تاثرات کا بھی استمال یا تو دانستہ کرتے ہیں یا پھر انجانے میں ان سے ” سرزد” ہو جاتا ہے .سیاست میں بھی ایک فاسٹ بولر والا مزاج ان پر حاوی ہے .اپنے سیاسی حریف کو بھی ایک مخالف بیٹسمین سمجھ کر وار کرتے ہیں ..نواز شریف پر ان کی سخت تنقید اور وہ بھی جب نواز شریف 2008 کے انتخابات کے بائیکاٹ کا وعدہ کر کے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ ہو گئے تھے ،تب سے ان پر سخت تنقید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کے عمران خان وعدہ خلافی کو سخت نا پسند کرتے ہیں کیوں اسی نواز شریف کے ساتھ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں عمران خان اور ان کی اہلیہ جمائما پر گندے اور شرمناک الزامات لگاے تھے ،جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے رہے تھے ،اور ان کے ساتھ لانگ مارچ میں بھی بھی شانہ بشانہ شریک رہے تھے لیکن اس وعدہ خلافی کے بعد عمران کی نواز شریف اور مسلم لیگ پر تنقید میں دن بدن سختی ہی آتی گیی .لوگوں کو جلد دوست نہیں بناتے لیکن اگر بنا لیں تو اس کو نبھاتے ضرور ہیں ..40 سال کی عمر تک شادی نہ کی لیکن جب کی تو پھر طلاق کے باوجود بھی عمران کے اپنے سسرال اور سابقہ بیوی سے اچھے مراسم برقرار ہیں ..مردم شانس نہیں ہیں ..لوگوں کو اپنے لیول سے دیکھتے ہیں ،لوگوں کے مزاج کو نہیں جلد نہیں سمجھ پاتے .یہ عادت ایک سیاست دان کے زہر قاتل ہے .
عقل و دانش ،شعور و فکر :
اپنی والدہ کی وفات کے بعد سے عمران خان اسلام کی جانب راغب ہوے .مارٹن لنگز کی محمد صلی الله وعلی وسلم پر لکھی کتاب نے ان کے دل کو چھو لیا تو روحانی استاد میاں بشیر نے ان کی دل میں آے شک و شبہات اور سوالات کے جوابات دے کر ان کو مطمئن کیا .عمران کا مطالعہ ذولفقار علی بھٹو کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی طور قائد محمد علی جناح کی فہم و فراست کے قریب پہنچ پاتے ہیں .عمران تجسس کے بعد تحقیق کے قائل ہیں وہ متجسس طالب علم کی طرح ہر علم اور فکر پر غور و فکر نہیں کرتے .بنیادیطور پر وہ ایک پپر عزم شخصیت ہیں جن کا الله پر اور پھر اپنے آپ پر پورا یقین اور بھروسہ ہے ..عمران سے زیادہ “دانش” بھری فلسفیانہ گفتگو کی توقع نہیں رکھنی چاہئے .وہ ایک ٹارگٹ اور گول کو حاصل کرنے کے قائل ہیں اور اس کو حاصل کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے خیال یا نظریے پر توجہ دیتے ہیں .اقبال کو اپنا فکری استاد سمجھتے ہیں .اسی لئے آسانی کے ساتھ کسی بھی شعبے میں ہار نہیں مانتے ..کرکٹ میں جب کوئی بھی ان کو ایک اوسط درجے سے زیادہ کا کھلاڑی تصور نہیں کرتا تھا عمران نے اپنی محنت اور متواتر مشقت سے اپنے آپ کو دنیا کا ایک عظیم آل راؤنڈر منوایا ،ہسپتال جب نہ مکین لگتی تھی تو سب کو غلط ثابت کر کے نہ صرف اس کو بنایا بلکے چلا کر بھی دکھا دیا ..سیاست میں قدم رکھا تو مسلسل ناکام رہے لیکن اب ایک طویل عرصے کی محنت کے بعد وہ ایک بازی گر کے روپ میں سامنے آییں ہیں .عمران کو ہمہ وقت اچھے مشیروں کی ضرورت رہتی ہے ،کیوں کے عمران ہر فن مولا نہیں ہیں .نہ ہی ہر معاملے کےہر پہلو پر نگاہ رکھ پاتے ہیں .عمران کے پاس پاکستان کے لئے ایک واضح خواب کی کی قلت پائی جاتی ہے .وہ صرف موجودہ قیادت کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بل پر اور ان کی ناکامیوں سے ڈرا کر عوام کو اچھے اور آج سے بہتر پاکستان کا سپنا دیکھا رہے ہیں .لیکن اگر ایک مربوط اور ٹارگیٹڈ خواب بھی عمران دیتے تو لوگوں کے لئے زیادہ پر کشش ہوتا .الله پاکستان کےلوگوں کو اچھی ،دیانت دار اور قابل قیادت منتخب کرنے کی صلاحیت بخشے .